27- 28th Issue of Istifsaar
So, here are we with yet another humble submission. First of all we would like to thank you all for your love, affection and support.
This time we are presenting the views of Dr. Ateequllah as Editorial .
This issue is divided into 09 sub parts including, Idariya, Yaad-e-RaftgaN, Nazar-e-saani, Ghazal ki wadi se, Afsana aur Main, Un-suni NazmeN, Jahan e Deegar, Book shelf and Istifsaar Aap ki Nazar MeiN.
As we always do, we have maintained the balance of all generations in this issue as well. Total 98 entries have found place in this issue pertaining to 59 different poets, writers and critics from different parts of the world.
We are hopeful that like previous issues, this issue will also make inroad into the literary world and will be appreciated.
We thank and appreciate the support of all the contributors, readers and the entire literary fraternity.
Team Istifsaar
ازہ شمارہ(جون ۲۲۰۲) دیکھ کر یہ یقین پختہ ہو گیا کہ استفسار اپنی انفرادیت اور معیار سے سمجھوتہ کرنے کا قائل نہیں ہے۔مضامین، تخلیقات اور دیگر نگارشات کا انتخاب یہ واضح کرتا ہے کہ تخلیق اور تنقید کی غیر ضروری اور غیر منفعت بخش مباحث سے قطع نظر خوب سے خوب تر اور تازہ نگارشات کی اشاعت اس کی اولین ترجیحات میں شامل ہے. اسے قائم اور مستحکم کرنے میں شین کاف نظام اور عادل رضا منصوری صاحبان کی مسلسل کاوشیں لائق تحسین ہیں۔پیش نظر شمارے کو منفرد بنانے میں مضامین کا رول زیادہ ہے (گذشتہ شمارے کا افسانوی گوشہ باوزن تھا)مرزا حامد بیگ کی دوسری تحریروں کی طرح یہ مضمون میں بھی ان کی قابل رشک یادداشت اور تحقیقی عرق ریزی کا عمدہ اظہار ہے۔اقبال فہیم جوزی کا مضمون سدرہ سحر عمران کے شعری اختصاس کے ساتھ ساتھ خود ان کی انتقادی صلاحیت اور مطالعہ کا غماز ہے۔علی احمد فاطمی نے تخلیق اور تنقید کے بگڑتے رشتوں کا قضیہ چھیڑ کر ایک طویل عرصے کا احاطہ کرتے ہوئے معا صر صورت حال کا بصیرت افروز جا ئزہ پیش کیا ہے۔اردو ناول کا ثقافتی سروکار گرچہ تفصیل طلب ہے مگر ضیاالحسن نے بڑے اختصار کے ساتھ ان پہلووں پر گفتگو کی ہے جو مفصل مباحثو ں میں تشنہ رہ جاتے ہیں. اس گوشہ میں ترنم ریاض کے ناول ”برف آشنا پرندے“ پر انتخاب حمید کا مضمون فکر انگیز اور توجہ طلب ہے۔انھوں نے اس ناول کے مطالعہ میں اپنا معروضی رویہ برقرار رکھتے ہوئے (جو ان کے تنقیدی طریقہ کارسے مختص ہے) اس میں مصنف کی ذہنی اور جذباتی وسیلوں کو بھی زیر بحث لاکر متن کی معنویت اور تجربہ کی صداقت کو اجاگر کیا ہے۔ اس طرز مطالعہ سے ان کے تنقیدی اسلوب کے تنوع اور تعبیر متن میں تخلیقی آگہی کو بروے کار لانے کے سلیقوں سے واقفیت ہوتی ہے. ناول کے ممکنہ حدود تک رسائی اور معنی کی بازیافت میں ان کا طریقہ کار غیر معمولی اور ان کی وضع کردہ لفظیات و اصطلاحات قدرے دبیز اور توانا ہیں. کشمیر کی معطر فضا سازی اور نیشنل و انٹرنیشنل کا امتزاج بھی توجہ طلب ہے. فیصل اقبال ایک باریک بیں اور غواص قاری کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کر رہے ہیں. اس شمارے میں صدیق عالم کے ناول “صالحہ صالحہ” پر ان کا مضمون ان کی گہری نظر اور تجزیاتی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے. رنگا رنگ اور بحث کے درواکرتی تحریروں سے مزین اس تحفے کے لیے عادل رضا منصوری صاحب کا شکریہ۔
شہناز رحمن
علی گڑھ