25nd- 26th Issue of Istifsaar

25- 26th Issue of Istifsaar

So, here are we with yet another humble submission. First of all we would like to thank you all for your love, affection and support.

This time we are presenting the views of Noon Meem Rashid as Editorial .

This issue is divided into 09 sub parts including, Idariya, Nazar-e-saani, Un suni NazmeN, Afsana aur maiN, Ghazal ki wadi se, Chhand ki duniya , Jahan e Deegar, Book shelf and Istifsaar Aap ki Nazar MeiN.

As we always do, we have maintained the balance of all generations in this issue as well. Total 78 entries have found place in this issue pertaining to 45 different poets, writers and critics from different parts of the world.
We are hopeful that like previous issues, this issue will also make inroad into the literary world and will be appreciated.
We thank and appreciate the support of all the contributors, readers and the entire literary fraternity.

Team Istifsaar

Click Here to View full Pdf

9 thoughts on “25nd- 26th Issue of Istifsaar

  1. ماشاءاللہ
    بہت خوب!
    ایک معیاری اور جاذبِ نظر رسالہ
    اللہ اس کی عمر دراز کرے۔ آمین!

  2. نہایت عمدہ اور جاذبِ نظر
    قارٸین کی پسند کےعین مطابق
    واہ ، جواب نہیں

  3. عہد حاضر کے چند معیاری رسالوں میں استفسار کا مقام نمایاں ہے ۔

  4. اردو کے معیاری رسائل میں استفسار نے اپنا ایک مقام بنا لیا ہے، یہ کہنے کی اب چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اس کے معیار کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اسے اردو کے صف اول کے ادیبوں کا قلمی تعاون حاصل ہے، دوسرے اس کے مدیران کی اپنی انفرادی صلاحیت۔ صرف بڑے نام کسی رسالہ کو معیاری نہیں بنا سکتے، مشمولات کے عمدہ انتخاب کی کلیدی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے۔اس ضمن میں شین کاف نظام اور عادل منصوری پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔
    تازہ شمارہ میں آصف فرخی کا شمیم حنفی سے لیا گیا انٹرویو اہم ہے ۔ معراج رعنا کا مضمون، ” شافع قدوائی کا تصور نقد: فکشن کے حوالے سے” ایک عمدہ مطالعہ ہے۔ اردو میں فی الحال تنقید کا میدان خالی نظر آتا ہے لیکن شافع قدوائی اس جگہ کو تیزی سے پر کررہے ہیں۔
    استفار کے اسی شمارہ میں خالد جاوید کا مضمون، “اردو کا پہلا پوسٹ مارڈن ناول ” شائع ہوا ہے جس کی گونج ادبی حلقوں میں سنائی دے رہی ہے۔ یہ مضمون اشعر نجمی کے متنازعہ ناول، ” اس نے کہا تھا” کا پوسٹ مارڈن تھیوریٹکل پس منظر میں جائزہ۔ جوں کہ ناول گے کمیونٹی کے پس منظر میں لکھا گیا ہے اس لیے ہمارے بعض شرعی ادباء نے ناک بھوں چڑھایا، لعنت ملامت کی اور خالد جاوید کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ اس قسم کے لوگ مضمون کو پڑھے بغیر اول فول بک رہے ہیں۔
    شامل افسانوں میں محمد حمید شاہد کا افسانہ، ” موت اور زندگی کے بیچ” بہت عمدہ ہے، اسی طرح سید محمد اشرف کا افسانہ، ” علامتی تشبیہ کی استعاراتی تمثیل ” پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
    شعری حصہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔

  5. یاد رفتگاں کے تحت ناصر عباس نیر اور خالد جاوید کی تحریروں کا مطالعہ کیا۔ یہ تحریریں عام انداز سے قطع نظر، محض شمیم حنفی اور زاہد ڈار کے شخصی انسلاکات کو ہی پیش نہیں کرتیں بلکہ ان کی شخصیت کے تناظر میں تخلیقی اور تنقیدی سروکار کے بعض اہم اور کارآمد نکتوں کو قاری کے سامنے لاتی ہیں اور احساس ہوتا ہے کہ کس طرح ادب کی اہمیت اور انسانی وجود کی حیثیت اس کی تحریروں پر اثرانداز ہوتی ہے اور ایک شخص کی ذہن سازی کا کام انجام دیتی ہے۔دوسرے حصے میں اشعر نجمی کے ناول پر لکھا گیا خالد جاوید کا مضمون “اردو کا پہلا پوسٹ ماڈرن ناول”میں ناول کے فنی ابعاد کو بڑی باریک بینی سے بیان کیا گیا ہے۔جو ناول کی تنقیدی تاریخ میں خصوصاََ فن کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ انتخاب حمید کا مضمون “اماوس میں خواب فکشن کی تعبیراتی گرہ بندیاں ” بہت اہم ہے کیوں کہ اس میں ناول کی تفہیم کے لیے جن tools کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ عام طور پر ناول تنقید میں عنقا ہے۔ ناول کی پرتوں کو کھولنے میں جس انداز نقد کو ملحوظ رکھا گیا ہے وہ غیر روایتی ہے۔ تنقید پر تنقید کرنا یقیناً ایک مشکل عمل ہے اس ضمن میں شافع قدوائی کی کتاب پر معراج رعنا کا مضمون “شافع قدوائی کا تصور نقد فکشن کے حوالے سے” اچھا مضمون ہے جس میں متن کے متعلق شافع قدوائی کے نظری اور عملی موقف کے تناظر میں مدلل بحث کی ہے۔ عادل رضا منصوری کا مضمون” میراجی اور مابعد قرآت” تنقید کی روایتی جکڑ بندیوں سے آزاد فکر انگیز مضمون ہے جس میں تخلیق اور تنقید کے متعلق کئ اہم سوال قائم کیے گئے ہیں اور تانیثی نقظہ نظر سے میراجی کی نظموں کی عمدہ تفہیم و تعبیر پیش کی ہے۔۔۔۔
    مطالعہ جاری ہے۔۔۔
    اس اہم شمارے کے لیے عادل رضا منصوری اور شین کاف نظام صاحبان کو مبارکباد۔۔ اس قیمتی تحفے کے لیے بہت شکریہ۔

  6. جے پور راجستھان کی مٹّی مجھے کیوں کھینچتی ہے،معلوم نہیں۔برسوں پہلے لاہور کی ایک ادبی کانفرنس میں جنابِ شین کاف نظام سے ملا تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ مجھے جانتے ہیں۔اس ملاقات پر وہ بہت سی کتابیں میرے یہاں چھوڑ گئے اور انتخاب کا حق دے کر فرمایا کہ جو کتابیں اُن کے پڑھنے کے لائق ہوں،انھیں بھجوا دوں۔میں نے یہ فریضہ پوری ذمہ داری سے انجام دیا اور احتیاط کی کہ اپنی کوئی کتاب ان میں شامل نہ کروں کہ میں اپنے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہوں۔
    اسی زمانے میں مجھے”استفسار” ملنا شروع ہوا۔کبھی براہِ راست اور کبھی مرحوم محمدحامد سراج کے توسط سے اور اُس وقت تک ملتا رہا جب تک اس نعمت کو ڈاک کی شرح کے ہوشربا اضافے نے نگل نہیں لیا۔
    “استفسار”مجھے عزیزم عادل رضا منصوری کے کرم سے آج بھی مل رہا ہے مگر پی ڈی ایف فارمیٹ میں۔اس صورت میں مجھے پڑھنے کی عادت نہیں۔فطری کاہلی کے علاوہ اس فارمیٹ سے رغبت نہ ہونا بھی بے رُخی کی ایک وجہ ہے،پھر بھی میری کوشش ہوتی ہے کہ”استفسار”پر نظر ڈال ہی لُوں۔۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ ہم عصر ہندوستانی اردو ادب کی طرف کُھلنے والا بہت معتبر دریچہ ہے اور ہندوستانی ادب کی پیش رفت کا وقیع پیمانہ۔
    اس وقت”استفسار” کا تازہ شمارہ جون 2021ء میرے پیشِ نظر ہے۔دیباچے کے طور پر ن۔م۔راشد کی ایک تحریر شامل کی گئی ہے۔راشد صاحب نے اصنافِ شعر سے شاعر کی نسبت اور قاری کی توقع کے حوالے سے عمدہ بحث کی ہے۔عجیب بات ہے کہ راشد صاحب کی طرح مثنوی لکھنے کی صلاح مجھے بھی دی گئی تھی اور عین ممکن ہے یہ وہی صاحب ہوں جن کے مشورے کے ردِ عمل میں راشد صاحب نے اس مضمون کا ڈول ڈالا ہے۔میں راشد صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اظہار کے لیے وہی صنف مناسب رہتی ہے جس سے شاعر کی طبع کو فطری نسبت ہو اور ہئیت کا معاملہ موضوع کی مناسبت ہی سے طے پاتا ہے۔
    یادِ رفتگاں میں شمیم حنفی سے آصف فرخی کا مکالمہ تیس برس پُرانا ہے مگر آج بھی اہم ہے۔شمیم حنفی کو میں نے پڑھا اور ان سے کئی بار مکالمہ بھی کیا۔حلقۂ اربابِ ذوق لاہور میں (جب میں حلقے کا سیکرٹری تھا) ان کو کئی بار مدعو کیا اور عمدہ مکالمہ ہوا۔وہ ان چند ناقدین میں سے تھے جو ہم عصر ادب سے بھرپور انسلاک رکھتے تھے اور یہ موانٔست صرف اردو فکشن اور شاعری تک محدود نہیں تھی۔ناصر عباس نیر نے زاہد ڈار پر عمدہ مضمون لکھا ہے مگر اسے”تفہیم” سمیت اتنی جگہوں پر شئیر کیا ہے کہ اب اس پر نظر ڈالتے ہوئے کچھ الجھن سی ہونے لگی یے۔
    خالد جاوید نے اشعر نجمی کے ناول”اُس نے کہا تھا”پر جم کر لکھا ہے۔میں نے یہ ناول نہیں پڑھا مگر خالد جاوید کے مضمون سے اس کا حصول اور قرات فرض ہو گئی یے۔میرا ادعا ہے کہ شاعری کی شاعر اور فکشن کی ایک فکشن نگار ہی بہتر تفہیم اور محاکمہ کر سکتا ہے اور خالد جاوید کا یہ مضمون اس بات کا بین ثبوت ہے۔
    مضامین میں عتیق اللہ کا احمد علی کے افسانے”موت سے پہلے”پر اور عادل رضا منصوری کا”میرا جی،مابعد قرات”بہت اہم ہیں۔میراجی کا بہت غلغلہ ہے مگر کچھ عرصے پہلے تک ان پر کام کا فقط ایک ہی مضمون لکھا گیا تھا۔اعجاز احمد کا مضمون:میراجی۔اب ایک عمدہ کتاب ناصر عباس نیر نے شائع کی ہے اور شاید میں بھی کبھی اپنی کتاب مکمل کر سکوں۔اس پس منظر میں عادل رضا منصوری کا یہ مضمون خاصے کی چیز ہے۔
    نظم کے حصے میں ستیہ پال آنند،صادق،عذرا عباس ،شبنم عشائی،فاروق انجینئر،حفیظ تبسم اور نیلم ملک سمیت کئی اہم شاعر موجود ہیں مگر سب سے زیادہ شعری لپک اور تاثیر مصطفیٰ ارباب کی شاعری میں ہے۔نثری نظم کے سانچے کو انہوں نے بہت مہارت سے برتا ہے اور اسے اپنے موجود کی دنیا کا آئینہ بنا دیا ہے۔
    فکشن میں محمد حمید شاہد،مظہر الزماں خان اور سید محمد اشرف جیسے لوگ شامل ہوں تو کسی تعارف کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔محمد حمید شاہد پچھلے دو برسوں سے اپنے افسانے کی تعمیر مانوس رفاقتوں کی بنیاد پر کرنے لگے ہیں۔کرداروں کا حقیقی ہونا فکشن نگار کے لیے کہانی کی بُنت میں جہاں معاون ہوتا ہے وہیں کہانی کی ماورائی جہت کو محدود بھی کرتا ہے مگر وہ اپنی تخلیقی استعداد کی ندرت اور وفور کے باعث بچ نکلتے ہیں اور افسانے میں ایک نئی طرح کی بات پیدا کر دیتے ہیں جو حقیقت کو ان کہی سے ملا دیتی ہے اور تحریر کو علامت میں بدل دیتی ہے۔۔یہی خوبی اس افسانے کی بھی جان ہے۔
    مظہر الزماں خان اور سید محمد اشرف کے افسانے ہمیشہ کی طرح خوب ہیں۔شفق سوپوری کا”مچک زا” بھی عمدہ ہے۔کہہ سکتے ہیں کہ”استفسار” کے فکشن کا گوشہ حقیقی معنوں میں اہم ہے۔
    غزلوں میں کرشن کمار طور،صابر ظفر،جمیل الرحمٰن،اظہر عنایتی،اسحاق وردگ اور سعید شارق کی غزلیں خوب ہیں۔اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ غزل کا منظرنامہ بدل رہا ہے اور غزل تہذیبی اساطیر سے صارفیاتی اساطیر کی تفہیم کے سفر پر نکلنے کو ہے۔
    جہانِ دیگر میں استوتی اگروال نے نیرودا کو ترجمہ کیا ہے۔اردو ادب کے حوالے سے نیرودا ایک کلٹ بن چکے ہیں۔اچھا ہو اگر”استفسار” کے مدیران ایک گوشہ ہندوستانی زبانوں کے ادب کے لیے بھی مختص کیا کریں۔
    “استفسار 25-26″کی اشاعت پر دونوں دوستوں کو مبارک باد

  7. شین کاف نظام اور عادل رضا منصوری کے ساتھ اگر ’’ استفسار ‘‘ کا نام نہ لیا جائے تو کچھ ادھورا ادھورا سا لگتا ہے۔ اور ادھورا ادھورا سا کیوں نہ لگے ! کوئی ایک دو دن یا چند دنوں کا نہیں ، اِن تینوں کا ساتھ کوئی آٹھ برسوں کا ہے ۔۲۰۱۳ ء میں ’’ استفسار ‘‘ کا پہلا شمارہ منظرِ عام پر آیا تھا،حال ہی میں نیا شمارہ آیا ہے ، ۲۴ اور ۲۵ نمبر کا مشترکہ شمارہ ، اسے سلور جبلی شمارہ کہا جا سکتا ہے۔پہلے ہی شمارے سے ادب نوازوں کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ’’ استفسار ‘‘ان پرچوں میں شامل نہیں ہو گا جو نکلتے تو دھوم دھام سے ہیں ، لیکن چند شماروں کے بعد اپنی چمک دمک کھو دیتے ہیں ، اور بند ہو جاتے ہیں ۔ اپنے آغاز سے آج تک یہ پرچہ پابندی سے نکل رہا ہے ، اس کی وجہ میرے خیال میں، دونوں مدیران کا اپنے اس پرچے سے لگاؤ ہے ۔ تازہ شمارہ دس زمروں میں تقسیم ہے ، اداریہ ، یادِ رفتگاں ،نظرِ ثانی ،ان سنی نظمیں ، افسانہ اور میں ، غزل کی وادی سے ،چھند کی دنیا، جہانِ دیگر ، بک شیلف ، اوراستفسار آپ کی نظر میں ۔ زمروں کے عناوین کی جدت کو آسانی سے محسوس کیا جا سکتاہے۔نثری اور شعری انتخابات میں بھی جدت ہے ۔ مدیران نے کامیاب کوشش کی ہے کہ جو کچھ بھی اس شمارے میں شائع ہو ، وہ نہ باسی ہو اور نہ ہی پھیکا ۔ اس شمارہ کے اداریے ’’ غزل اور نظم ‘‘ کو دیکھ کر کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ یہ تو باسی تحریر ہے کہ اسے ن م راشد نے لکھا تھا ۔میں بتا دوں کہ باسی سے میری مراد پرانی تحریریں نہیں ہیں ، باسی سے مراد ایسی تحریریں ہیں، جو نئی ہونے کے باوجود پڑھی ہوئی لگیں ، کہیں سے مارا گیا خیال ، کہیں سے اڑائے گئے جملے ۔ بات اداریہ ہی سے شروع کرتے ہیں ۔ ن م راشد کی ایک تحریر کو اداریہ بنا کر مدیران نے شاید یہ پیغام دینا چاہا ہے کہ کچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں جو ہر دور کے لیے ہوتی ہیں ، ہمشہ باقی رہنے والی ۔ ن م راشد کی یہ ہمیشہ باقی رہنے والی تحریر ’لکھنے‘ کے جواز پربحث کرتی ہے ۔ ن م راشد کا کہنا ہے کہ ’’ لکھنے کا تنہا جواز فرد کی ذات کا اظہار ہے ۔ البتہ فرد کی ذات کے ریشےاس کی زبان( میرے خیال میں یہاں ’ زمان ‘ ہے۔مبصر)و مکان میں گڑے ہوتے ہیں ۔اس لیے وہ اپنے زمان ومکان کی ترجمانی پر مجبور ہے اور اس لیے کوئی نیک دل سے نیک دل دوست بھی اسے جائز طور پر یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ اسے کیا لکھنا چاہئے اور کیوں کر لکھنا چاہئے۔‘‘ ن م راشد کی یہ تحریر ہر ’ لکھنے ‘ والے کو پڑھنی چاہئے ۔ ’ یادِ رفتگاں ‘ میں دو مضامین ، ایک گفتگو اور شاہد میر کی شعری کائنات سے ایک انتخاب ، شامل ہیں ۔گفتگو کرنے والی دونوں شخصیات ، آصف فرخی اور شمیم حنفی،اردو زبان وادب میں، اپنے پیچھے ایک ایسا خلا چھوڑ گئی ہیں جس کا پُر ہونا ممکن نہیں ۔ دونوں کی گفتگو کا عنوان ’’ حرفِ من و تو : شمیم حنفی سے ایک یادگار انٹرویو ‘‘ ہے ، اس میں مرحوم آصف فرخی نے ادب کے تقریباً ہر پہلو پر بات کی ہے ، بھرپور بات۔ شمیم حنفی کی تنقید پر آصف فرخی کے تین جملے ملاحظہ کریں : ’’ ان کے نزدیک تنقید ، ایک غیر شخصی اور یکسر معروضی مطالعے کا نام نہیں بلکہ زندگی میں اس معنویت کی تلاش ہے جو گہری وابستگی کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔وہ تنقید کو تاثرات کی سطح پر نہیں اتار لائے بلکہ مطالعہ کو اپنی ذہنی و روحانی واردات کا جزو بنا کر پیش کرتے ہیں۔ان کا اصل موضوع ادب کا تجزیہ نہیں بلکہ ادب کا تجربہ ہے۔‘‘ ان تین جملوں میں مرحوم حنفی صاحب کی مکمل شخصیت ابھر آتی ہے۔اس طویل مضمون میں شمیم حنفی کی شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے ۔ ایک سوال کے جواب کی چند سطریں ملاحظہ کریں: ’’ آصف ،میں اس لمحے میں اپنے حشرسے ڈرتا ہوں جب مجھے نقاد سمجھا جائے۔مجھے اس بات سے بہت خوف آتا ہے کہ قیامت کے دن مجھے نقادوں میں سے اٹھایا جائے گا۔کیوں کہ میرا معاملہ تو یہ ہے کہ میں کوئی تحریر پڑھتا ہوں،کوئی نظم یا کوئی کہانی پڑھی تو اس سے ایک تاثر میرے ذہن میں پیدا ہوتا ہے ۔ کبھی وہ تاثر دھندلا ہوتا ہے کبھی روشن۔کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ اسے قلم بند کردوں ، کبھی جی چاہتا ہے نہ کروں۔جب قلم بند کرتا ہوں تو یہ سوچتا ہوں کہ شاید کوئی دوسرا بھی اس تجربے میں شریک ہو سکے۔اسی لحاظ سے میں کبھی کبھی ایسی چیزیں لکھتا ہوں جنہیں تنقیدی مضامین کہا جا سکتا ہے۔‘‘ ایک جگہ غزل کے مقابلے نظمیں زیادہ پڑھنے کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں : ’’ یہ چیزیں کبھی کبھی بہانہ بن جاتی ہیں کسی انوکھے تجربے کی پہچان کا، بظاہر تو دیکھنے میں ان کی ایک متعین شکل ہوتی ہے،کسی پرندے کی یا کسی درخت کی، لیکن اس درخت کے اندر جو ایک درخت چھپا ہوتا ہے ، اس بہانے سے اس کا نظارہ ہو جاتا ہے۔تو ادھر یہ کیفیت کمیاب ہوتی جا رہی ہے ہماری غزلوں سے ، اس لیے ذاتی طور پر میں نظمیں زیادہ پڑھتا ہوں۔‘‘
    اس زمرہ میں خالد جاوید کا مضمون ’’ شمیم حنفی۔ایک غیر رسمی تعزیتی تحریر ‘‘ شامل ہے جسے میں ایک ’ نوحہ ‘ کہوں گا ،ایسا ’ نوحہ ‘ جس میں شائستہ انداز میں غم اور الم کی کیفیت ہے۔یہ مضمون شمیم حنفی کی شخصیت کی مختلف تہوں کو ،جن سےشاید بہت لوگ واقف نہ ہوں ، اجاگر کرتا ہے ، ادب کے تئیں ان کے رویے کو ، ہر طرح کے تعصب اور تنگ نظری سے پاک ان کے کردار کو ، دوسروں کی مدد کے لیے ان کے اشتیاق کو اور ان کی گفتگو کے انداز کو ۔ خالد جاوید کے بقول ’’ حیات و کائنات کا کوئی ایسا مسٔلہ نہیں تھا جس پر انہوں نے محض چلتے چلتے گہری اور فکر انگیز باتیں نہ کی ہوں۔یہ وہ باتیں تھیں جو ان کی تقریروں ، لکچرز اور تحریروں سے الگ تھیں اور شمیم حنفی کی شخصیت کی نئی نئی جہات کی نشان دہی کرتی تھیں ۔ کاش میں نے ان باتوں کو خاموشی کے ساتھ ٹیپ کر لیا ہوتا۔‘‘ ناصر عباس نیر کا مضمون ’’ آدمی کائناتی ابتری کی روح ہے ‘‘ زاہد ڈار کی یاد میں ہے ۔ ناصر عباس نیر کی ہر تحریر کی طرح شاندار ۔زاہد ڈار کی شخصیت کو ایک شکل دینے کے لیے ، کیا خوبصورت بات لکھی ہے ، خوبصورت بھی اور پڑھنے والے کے دل کو درد سے بھر دینے والی بھی :’’ زاہدڈار کے لیے ادب طرزِ حیات تھا مگراس کے سلسلے میں ان کے یہاں کوئی دعویٰ نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں کوئی بھی دعویٰ نہیں تھا۔وہ دلِ بے مدعا کی جیتی جاگتی مثال بن گئے تھے ۔‘‘
    شاہد میر کی آٹھ نظمیں ’’ راگ رنگ ‘‘ کے عنوان سے ہیں ،انہیں پڑھ کر وہ کیفیت ،جس کی بات شمیم حنفی نے کی ہے ،طاری ہوتی ہے ۔
    ’نظرِ ثانی ‘ کے تحت سات وقیع مضامین شامل ہیں ۔لکھنے والےعتیق اللہ ، علی احمد فاطمی ، خالد جاوید ، انتخاب حمید ، معراج رعنا ، تفسیر حسین اور عادل رضا منصوری ہیں۔موضوع ہیں احمد علی کا افسانہ ’موت سے پہلے‘،کلامِ آتش کی نئی قرات،اشعر نجمی کا ناول’ اس نے کہا تھا‘حسین الحق کا ناول ’ اماوس میں خواب ‘،شافع قدوائی کا فکشن کے حوالے سے تصورِ نقد،تنویر انجم کی شاعری اورمیرا جی اور مابعد قرأت۔ نظمیں اور غزلیں منتخب ہیں ،افسانے سب ہی اچھے ہیں ، سید محمد اشرف کا افسانہ ’علامتی تشبیہ کی استعاراتی تمثیل‘ مذہبی شدت پسندی پر ایک گہرا طنز ہے۔ سیفی سرونجی کے دوہےایک نئے جہان کی سیر کراتے ہیں ۔ استوتی اگروال نے پابلو نیرودا کی ایک نظم کا انگریزی سے خوبصورت ترجمہ کیا ہے ، وہ مبارک باد کی حق دار ہیں ۔ اس شمارے میں ان سب کو ،جو ہم سے بچھڑ گئے ہیں ، خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے ۔ ادب کے قارئین کے لیے یہ شمارہ ایک تحفہ ہے

  8. شین کاف نظام اور عادل رضا منصوری کی ادارت میں شایع ہونے والا ”استفسار“ ایک خالص علمی و ادبی رسالہ ہے۔ اس نے ادب کے سنجیدہ قارئین کے درمیان اپنی الگ شناخت قائم کر لی ہے۔ زیر نظر شمارے میں ن۔م۔راشد کی تحریر ”غزل اور نظم“ کو اداریے کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ ن۔م۔ راشد کا کہنا ہے کہ ہر صنف کی ایک الگ شناخت اور اہمیت ہے۔ کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔جس قلم کار کا رجحان جس جانب ہو اسے اسی میں طبع آزمائی کرنی چاہیے۔اور یہ بھی ایک ادیب بیک وقت کئی اصناف پر طبع آزمائی کر سکتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ”اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ غزل لکھ سکتے ہیں وہ غزل کیوں نہ لکھیں؟ یا جب کوئی شاعر ہزاروں نظمیں لکھنے کے بعد بھی غزل کہنا چاہے تو کیوں نہ کہے؟ لکھنے کا تنہا جواز فرد کی ذات کا اظہار ہے۔البتہ فرد کی ذات کے ریشے اس کے زمان و مکان میں گڑے ہوتے ہیں۔اس لیے وہ اپنے زمان و مکان کی ترجمانی پر مجبور ہے۔اور اس لیے کوئی نیک دل سے نیک دل دوست بھی اسے جائز طور پر یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ اسے کیا لکھنا چاہیے اور کیونکر لکھنا چاہیے۔“
    ”یاد رفتگان“ کے تحت شمیم حنفی سے لیا گیا آصف فرخی کا انٹرویو، خالد جاوید کا مضمون”شمیم حنفی: ایک غیر تعزیتی تحریر“ اور زاہد ڈار پر ناصر عباس نیّر کے مضامین شامل ہے۔ علاوہ ازیںادارے کی جانب سے شاہد میر کی نظمیں بھی پیش کی گئی ہیں۔ شمیم حنفی سے آصف فرخی کا لیا گیا انٹرویو کافی اہمیت کا حامل ہے جس سے ان کی زندگی اور فن کے کئی گوشے ہماری نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ خالد جاوید کی تعزیتی تحریر از دل خیزدبر دل ریزد کے مصداق دل سے نکلی اور دل میں اُتر گئی۔ ان کا افسانوی اندازِ بیان سحر انگیز ہے۔
    ”نظر ثانی“ کے تحت آٹھ مضامین پیش کیے گئے ہیں۔احمد علی اور ان کا افسانہ موت سے پہلے(عتیق اللہ)کلامِ آتش کی نئی قراءت: نئی ترقی پسندی کے حوالے سے(علی احمد فاطمی)اردو کا پہلا پوسٹ ماڈرن ناول (خالد جاوید)اماوس میں خواب: فکشن کی تعبیراتی گروہ بندیاں(انتخاب حمید) شافع قدوائی کا تصورِ نقد: فکشن کے حوالے سے(معراج رعنا)تنویر انجم کی شاعری : نسائی وجود کا اثبات ،صیغہ ء تانیث کی تشکیل اور انسانی سروکار (تفسیر حسین) اور میرا جی اور ما بعد قراءت (عادل رضا منصوری)
    ”انگارے“ سے شہرت پانے والی احمد علی کا افسانہ”موت سے پہلے “ قاری پر ایک فسوں طاری کر دیتا ہے۔عتیق اللہ نے اس افسانے کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔خالد جاوید نے اشعر نجمی کے تازہ ناول ”اس نے کہا تھا“ پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔عادل رضا منصوری نے میرا جی کی شاعری کو نئے طور سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں وہ پوری طرح کامیاب ہیں۔
    ”ان سنی نظمیں“ کی ذیل میں ستیہ پال آنند کی دو،صادق کی دو ،سلیمان خمار کی ایک، عذرا عباس کی دو،شبنم عشائی کی چار،مصطفیٰ ارباب کی تین،فاروق انجینیر کی چار ،پرویز شہریار کی ایک،نیلم ملک کی دو ،شہرام سرمدی کی دو اور حفیظ تبسم کی نظمیں شامل ہیں۔
    ”افسانہ اور میں“ میں چار افسانے ”موت اور زندگی کے بیچ“(محمد حمید شاہد) ”آخری کھیل“(محمد مظہر الزماں خاں)”علامتی تشبیہ اور استعاراتی تمثیل“(سید محمد اشرف)اور” مچک زا“(شفق سوپوری) ۔ان افسانوں کے عنوانات سے ہی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جدید رنگ و آہنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ محمد حمید شاہد کا افسانہ خوب ہے لیکن سید محمد اشرف کا افسانہ پڑھ کر مایوسی ہوئی۔”ڈار سے بچھڑے“، ”باد صبا کا نتظار“ آدمی “،”آخری موڑ پر“،”آخری بن باس“،قربانی کا جانور“اور لکڑ بگھا رویا“(افسانے) اور ”نمبر دار کا نیلا“اور ”آخری سواریاں“(ناول) کے مصنف سے اس سے بہتر کی توقع تھی۔
    شعری حصے میں مختلف شاعروں کی چھبیس غزلیں،سیفی سرونجی کے دوہے اور استوتی اگروال کے ذریعہ کیاگیا پابلو نیرودا کی ایک نظم کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔غزلوں کے درج ذیل اشعار خاص طور پر پسند آئے۔
    زمیں ہو سامنے یا آسماں نظر آئے
    جو تو نہیں ہے تو پھر کیا یہاں نظر آئے(کرشن کمار طور)
    آئی پھر نافہء امروز سے خشبوئے وصال
    کھل گیا پھر کوئی در بند پذیرائی کا(مہتاب حیدر نقوی)
    سچ کی آواز کوق سینے میں دبا رکھا ہے
    مصلحت نے ہمیں بزدل سا بنا رکھا ہے(اظہر عنایتی)
    اس کی دیتا ہے خبر دیدہءنمناک مجھے
    چھوڑ جائے گیءکسی روز مری خاک مجھے
    کوئی رشتہ ہی نہیں اس سے اگر میرا تو پھر
    کیوں صدا دیتا ہے دروازہءافلاک مجھے(سید محمد نور الحسن نورنوابی عزیزی)
    ایک چہرے کی کمی ہے مجھ میں
    ورنہ ہر چیز پڑی ہے مجھ میں
    ایک دروازہ گرا تھا کل شام
    آج دیوار گری ہے مجھ میں(اسحاق وردگ)
    ”استفسار“ کا سفر نہایت آن بان اور شان سے جاری ہے۔ اُمید ہے کہ یہ دونوں حضرات اس ادبی سفر میں لمبی مسافت طے کریں گے اور یہ رسالہ ادب کی تاریخ میں اپنا نام درج کروائے گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Current ye@r *

Enable Google Transliteration.(To type in English, press Ctrl+g)

Please fill out your details. And Download Our Pdf!

[vCitaContact type=contact width=500 height=350]